Salman Ahmad

Add To collaction

رحم پر



دل بے رحم کی خاطر مدعا کچھ بھی نہیں ہوتا 

عجب حالت ہے اب شکوہ گلا کچھ بھی نہیں ہوتا 

کوئی صورت ابھرتی ہے نہ میں مسمار ہوتا ہوں 

میں وہ پتھر کہ جس کا فیصلہ کچھ بھی نہیں ہوتا 

کسی کو ساتھ لے لینا کسی کے ساتھ ہو لینا 

فقیروں کے لئے اچھا برا کچھ بھی نہیں ہوتا 

کبھی چلنا مرے آگے کبھی رہنا مرے پیچھے 

رہ الفت میں چھوٹا یا بڑا کچھ بھی نہیں ہوتا 

کبھی دل میں مرے تیرے سوا ہر بات ہوتی ہے 

کبھی دل میں مرے تیرے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا 

وحی ٹوٹی ہوئی کشتی وہی پاگل ہوائیں ہیں 

ہمارے ساتھ دنیا میں نیا کچھ بھی نہیں ہوتا 

یہ سودا ہے نگاہوں کا تجارت دل کی ہے لیکن 

محبت میں خسارہ فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا 

کبھی دو چار قدموں کا سفر طے ہو نہیں پاتا 

کبھی میلوں سے لمبا فاصلہ کچھ بھی نہیں ہوتا 

فقط کردار کا مارا ہوا ہے ہر بشر ورنہ 

کوئی انسان اچھا یا برا کچھ بھی نہیں ہوتا 

فلک پر ہی ستاروں کا کوئی عنوان ہوتا ہے 

کسی ٹوٹے ستارے کا پتہ کچھ بھی نہیں ہوتا 

بھلے خواہش کروں تیری کسی بھی شکل میں لیکن 

مرا مقصد پرستش کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا 

اگر دیکھوں تو خامی ہی دکھائی دے ہر اک شے میں 

اگر سوچوں تو خود سے بد نما کچھ بھی نہیں ہوتا 

بظاہر عمر بھر یوں تو ہزاروں کام کرتے ہیں 

حقیقت میں مگر ہم نے کیا کچھ بھی نہیں ہوتا 

از قلم سلمان احمد نزیری ✍️🌹

   3
0 Comments